١.سوال:-حج بدل درست ہونے کے لیے کتنی شرائط ہیں اور کیا کیا ہے؟

جواب:-حج بدل کے لیے چند شرائط ہیں۔۔(1). آمر کا اسے حج کرنے کے لیے صراحتاً حکم دینا ،البتہ وارث کا اپنے مورث کی طرف سے بلا امر حج کرنا بھی معتبر ہے،(2). احرام باندھتے وقت مامور کا آمر کی طرف سے حج کی نیت کرنا،(3). مامور کا آمر کی طرف سے خود حج کرنا،دوسرے سے نہ کروانا،(4). اگر میت نے حج بدل کی وصیت میں کسی خاص شخص کو متعین کیا ہو تو اسی متعین شخص کا عرض کرنا ضروری ہے الا یہ ہے کہ کوئی معقول عذر ہو (5). اکثر سفر حج میں آمر کا مال خرچ کرنا،(6). اکثر سفر سوار ہو کر کرنا لہذا اگر پیدل سفر کیا تو آمر کی طرف سے حج درست نہیں ہو گا ،(7). آمر کی وطن سے سفر شروع کرنا،(8). حج کو فاسد نہ کرنا کیونکہ اگر حج بدل کو فاسد کر دیا تو یہ حج آمر کی طرف سے نہ ہو کر مامور کی طرف سے ہوگا ،(9). آمر کے حکم کی مخالفت نہ کرنا مثلا اس نے حج افراد کا حکم دیا ہے اور معمور نے اپنی مرضی سے حج قران یا حج تمتع کر لیا تو یہ حج آمر کی طرف سے نہیں ہوگا البتہ اگر خود آمر یا وصی حج تمتع یا قران کی اجازت دے تو اس کی گنجائش ہے(10). ایک سفر میں ایک ہے حج کا احرام باندھنا لہذا اگر معمور نے آمر کے احرام کے بعد اپنی حج کا بھی احرام باندھ لیا تو آمر کا حج ادا نہ ہوگا،(11). ایک احرام میں دو شخصوں کے نیت نہ کرنا لہذا اگر مثلا دو ادمیوں نے مامور کو حج بدل کا حکم دیا اور اس نے اس سفر میں دونوں امرو کی طرف سے نیت کر لی تو ان آمروں میں سے کسی کی طرف سے بھی حج ادا نہیں ہوگا(12). حج کا فوت نہ کرنا۔فقط واللہ اعلم ۔

لتاسع: وجود العذر قبل الاحجاج فلو احد جاء صحح ثم عجز لا يجزيه العاشر: ان يحج راكبا فلو حج ماشيا ولو بامره ضمن النفقة،(رد المختار،باب الحج عن الغير:١٧/٤ زكريا ديوبند)

منها: ان يكون المحجوج ان عاجزا عن الاداء بنفقة له مال.... ومنها: ان يحج راكبا حتى لو امره بالحج فحج ماشيا،يضمن النفقة ويحج عنه راكبا ثم الصحيح من المذهب فيمن حج عن غيره : الاصل الحج يقع عن المحجوج عنه ولهذا لا يسقط به الفرض عن المامور وهو الحج(الهنديه: ٣٢١/١،باب الربيع عشر: في الحج عن الغير،زكريا ديوبند)

وفي الزخيرة: ثم انما يسقط فرض الحج عن الانسان باحجاج غيره اذا كان يحج وقت الاداء عاجزا عن الاداء بنفسه ،... مات اما اذا زال عجزه بعد ذلك فلا يسقط عنه حج الفرض(بدائع الصنائع:٤٥٥/٢،نعيميه ديوبند)

سوال:-حج بدل کرنے والا اگر اپنی طرف سے حج کی نیت کر لے تو شرعا کیا حکم ہے؟

جواب:-حج بدل کرنے والا اپنی طرف سے حج کی نیت کر لے تو حج ادا نہیں ہوگا بلکہ جو حج بدل کرا رہا ہے اس کی جانب سے ادا ہوگا شرط یہ ہے کہ وہ آمر کی جانب سے حج ادا کرنے کی نیت کرے۔فقط واللہ عالم

ويشرط نية الحج عنه اي: من الأمر...(شامي: ١٨/٤ كتاب الحج اشرفيه ديوبند)

ويقع الحج بمفروض عن الامر على الظاهر من المذهب(در مختار مع شامي،كتاب الحج: ٢٠/٤ زكريا ديوبند)

سوال:-حج بدل کرنے والا اقسام حج میں سے کون سا حج کریں ؟

جواب:-حج بدل میں اصل یہ ہے کہ معمور کا حج میقاتی ہو یعنی وہ میقات سے حج کے احرام باندھے اور یہ بات حج افراد اور حج قران میں تو پائی جاتی ہے لیکن حج تمتع میں نہیں پائی جاتی اسی لیے بہت سے کتابوں میں یہی لکھا ہے کہ حج بدل میں افراد یا قران ہی کا ہونا چاہیے حج تمتع سے حج بدل معتبر نہ ہوگا البتہ حج قران کے لیے آمر کی طرف سے اجازت ضروری ہے۔فقط واللہ اعلم

قالوا قيل بالقران لان في التمتع يسير مخالفا بالاجماع وانما العمرة عن الامر لانه امر بالانفاق في سفر الحج وقد اتفق في سفر العمرة لانه امر بحجه ميقاتيه وقد اتى بحجة مكية(البحر العميق: ٣١٢٣/٤)

قال الشيخ ابو بكر محمد بن الفضل رحمه الله تعالى اذا امر غيره بأن يحج عنه ينبغي ان يفوض الامر الى المامور فيقول: حج عني بهذا كيف شئت ان شئت حجة؟ وان شئت حجة وعمرة ،وان شئت قرانا والباقي في المال مني لك وصية كيلا يضيق الامر على الحاج ولا يجب عليه رد ما فصل الى الورثة(قاضيخان:٣٠٧/١)

1 thought on “١.سوال:-حج بدل درست ہونے کے لیے کتنی شرائط ہیں اور کیا کیا ہے؟”

Leave a Comment